In the Name of Allahazwj the Beneficent, the Merciful
Attending a patient (Ayadat -e-Mareez)
مریض کی عیادت
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ ابْنِ أَبِي نَجْرَانَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ حَرِيزٍ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ أَحَدِهِمَا ع قَالَ إِذَا دَخَلْتَ عَلَى مَرِيضٍ فَقُلْ أُعِيذُكَ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ مِنْ شَرِّ كُلِّ عِرْقٍ نَفَّارٍ وَ مِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ سَبْعَ مَرَّاتٍ
زرارہ نے امام ؑ محمد باقر ؑ یا امام ؑ جعفر صادق ؑ سے بیان کیا ہے ،جب تم کسی مریض کے پاس جاؤتو کہو میں تجھے پناہ میں دیتا ہوں رب عظیم کی جو عرش عظیم کا رب ہے ہر اس رگ کے شر سے جو جوش میں ہواور آگ کی حرارت کے شر سے۔(سات مرتبہ دہرائیے)
Zarara narrates from Imam Mohammed Baqir-asws that when you visit a patient then recite: I give you in the protection of ‘The Greatest Rub’, Who is the creator of ‘Arsh-e-Azim’, from every harm embroiled in your veins and the damage of the shooting temperature (repeat it 7 times).
Usool-e-Kafi, tradition 12, vol. 5, pp. 216.
امام ؑ علی ؑ رضا، اپنے اصحاب میں سے ایک صحابی کی عیادت کیلئے گئے جو بستر مرگ پر تھا ۔آپ ؑ نے اس کی مزاج پرسی فرمائی، اس نے جواب دیا کہ میں آپ ؑ کی پچھلی دفعہ کی عیادت کے بعد بہت زیادہ درد اور بے چینی میں مبتلا ہوگیا تھا ، آپ ؑ نے فرمایاکہ یہ پریشانی موت کی وجہ سے نہیں بلکہ تمھاری بیماری کی وجہ سے ہے پھر آپ ؑ نے اس کو موت کے بارے میں بتایا اور ان لوگوں کی دو قسموں کے بارے میں بتایا، ایک وہ جن کو موت پا کر سکون ملتا ہے اور دوسری قسم وہ ہے جن کے مرنے کے بعدباقی لوگوں کو سکون ملتا ہے، آپ ؑ نے اس کو تلقین کی کہ وہ دوبارہ گواہی دے توحید، رسالت اور امامت کی تاکہ وہ ان لوگوں میں شامل ہو جائے جن کو موت کے بعد راحت و سکون ملتا ہے۔اس نے فوراََ اس پر عمل کیا۔
Imam Ali Raza-asws visited, one of his companions who was on his death bed and enquired from him about his condition. He replied; I had gone through a lot of pain and un-comfort after you had visited me last time. Imam-asws replied you have not been troubled by the approaching death but got anxious by your disease. Imam-asws then told him about the death and that there are two types of people, the ones who are relieved after meeting their death and the other kind whose death is a sigh of relief for others. And asked him to renew his pledge to ‘Tauheed’ and ‘Rasalat’ and our ‘Wilait’, so that you ensure you are among those who get pleasure and bounties after death. He, immediately, reiterated the above.
Nahjul Israr, vol. 2, pp. 377